Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

جنات کا پیدائشی دوست Part3

ماہنامہ عبقری - اگست 2016ء

۔میں آگے بڑھتاگیا اور میری حیرت بڑھتی گئی: میں آگے بڑھتا چلا جارہا تھا اور میری حیرت اور زیادہ بڑھ رہی تھی اور میری تمنائیں حد سے زیادہ ان کیفیتوں کے ساتھ بڑھتی چلی جارہی تھیں۔ میں حیرت زدہ بھی تھا اور میری کیفیت میں ایک استجاب بھی تھا ۔میرے قدم بڑھ رہے تھے‘ ہر بڑھتے قدم کے ساتھ حیرت کا نیا جہان میرے سامنے کھل رہا تھا‘ میں اس جہان کو دیکھ رہا تھا اور میری طبیعت میں حیرت انگیز طور پر محسوس ہورہا تھا کہ میں کیا دیکھ رہا ہوں؟ اور میں کس دنیا میں پہنچ گیا ہوں؟ میں حیران بھی تھا‘ پریشان بھی تھا اور یہ سارا نقشہ میں دیکھ رہا تھا اسی دوران ایسے محسوس ہوا جیسے کہ موسیقی کی آواز ہے، میں نے ادھر ادھر دیکھنا شروع ہوا کہ موسیقی کی آواز کہاں سے آئی مجھے محسوس ہوا کہ درو دیوار سے اور چھت سے وہ پرسوز موسیقی کی آواز نکل رہی تھی‘ اس کے تھوڑی دیر کے بعد مجھے احساس ہوا کہ وہ موسیقی کی آواز نہیں ہے وہ اصل میں درود پاک پڑھنے کی آواز تھی اور ایسی آواز تھی کہ میں کچھ لمحے بعد میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور میری ہچکی بندھ گئی درود و سلام کا وہ انداز اور اس کا وہ اثر اور اس کی وہ تاثیر میں ابھی تک نہیں بھلا سکا۔روئیں روئیں سے درود و سلام کی خوشبو: ابھی قارئین میں آپ کے سامنے یہ سطور لکھ رہا ہوں میرے رنگ رنگ میرے انگ انگ اور میرے روئیں روئیں سے درود وسلام کی وہ خوشبو پھوٹنا شروع ہورہی ہے اور مجھے احساس ہورہا ہے کہ میں اس خوشبو میں اتنا نہا گیا ہوں کہ میرے روئیں روئیں انگ انگ سے وہ خوشبو پھوٹ رہی ہے اور میرا وجود ہلکا ہورہا ہےا ور میری طبیعت معطر ہورہی ہے۔ میں اپنے آپ کو اس انوکھے جہان میں پارہا ہوں اور اس انوکھے جہان کی خوشبو کو لے رہا ہوں۔ اس کے درو دیوار سے چھت سے ایسے درود و سلام کا ترانہ پھوٹ رہا تھا جیسے اس میں کوئی سپیکر لگے ہوئے تھے جبکہ کوئی سپیکر نہیں تھے میں نے حیرت سے دیکھا تو اس سردار نے کہا ہمارے ہر آنے والے مہمان کیلئے جو کہ دنیا سے آتا ہے اور اس جہان میں آپ دنیا کے پہلے انسان ہیں جو آئے ہیں اور ان کیلئے یہ استقبال ہے اور انہیں ایک درود و سلام کا تحفہ پیش کیا جارہا کہ آپ بھی اپنی زندگی میں اپنے دل میں درود و سلام کو اور مدینے والے تاجدارﷺ کو ہمیشہ درود و سلام سے یاد رکھیں۔ میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ میرا دل موم ہوگیا تھا‘ میرے اندر تڑپ تھی اور مجھے ایک احساس ہورہا تھا کہ اب یہ مجھے آگے لے جائیں گے لیکن اب مجھے یہاں سے نہ ہٹائیں ‘میں یہاں سے ہٹنا نہیں چاہتا ۔میں بہت مطمئن ہوں اور مجھے بہت اعتماد ہے ۔میرے دل کے اندر کی ایک ایک کلی کھل رہی ہے میرا ایک ایک رواں میرا ایک ایک گوشاں میرا ایک ایک دل کا دریچہ درود و سلام کی برکت سے بہت زیادہ معطر اور منور ہوگیا ہے لیکن و ہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا وہ سردار مجھ سے کہنے لگے آئیے! ہم آگے چلتے ہیں وہ مجھے کہاں لےکر جارہے تھے میرے قدم نہیں اٹھ رہے تھے لیکن ایک غیبی طاقت تھی جو میرے قدم مجھ سے اٹھا کر مجھے آگے بڑھا رہی تھی اور ایک غیبی قوت تھی جو میرے اندر کو ایک احساس دے رہی تھی کہ یہاں سے آگے بڑھنا ہے اور یہاں سے آگے بڑھ کر یہاں کی دنیا کے ایک ایک نظام کو مزید دیکھنا ہے میں اسی حیرت اور کیفیت کے ساتھ آگے بڑھتا چلا جارہا تھا۔ میرا وجود‘ میرا وجدان تھرتھرا رہا تھا: آگے محسوس کیا کہ دیواروں سے سورۂ یٰسین کی آواز آرہی ہے لیکن سورۂ یٰسین میں نے پڑھی بھی‘ سنی بھی پر وہ کیا سورۂ یٰسین تھی میں اس سورۂ کو کیا بیان کروں اور اس سورۂ یٰسین کو میں کیسے بیان کروں میرا اندر ‘میرا دل‘ میری کیفیتیں‘ میرا وجود‘ میرا وجدان تھرتھرا رہا تھا ایسے محسوس ہورہا تھا میں جنت میں ہوں اور جو احادیث میں جنت میں سورۂ یٰسین پڑھنے کا تذکرہ ہے شاید وہی ہے۔ میرے اس خیال کو دل میں آتے ہی جو کہ سردار نے کہا جو کہ ساتھ کھڑا تھا نہیں آپ جنت میں نہیں ہیں یہ دنیا ہے یہ دنیا ہی اتنی معطر ہےتو جنت کیا ہوگی؟ میں آگے بڑھا ایک اور محل شروع ہوا اس محل کے نقشے اس نقشے سے کہیں اور منفرد تھے اس کی دنیا اس کی دنیا سے کہیں اور دور تھی اس کا نظام اس سے کہیں اور زیادہ تبدیل تھا میں دیکھتا ہی چلا جارہا تھا میری حیرت بڑھ رہی تھی میری سانسیں رک رہی تھیں‘ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ میں سنتا تو تھا کہ اللہ پاک عالمین کا رب ہے۔ لیکن میں نےتو صرف انسانوں اور جنات کے عالم دیکھے تھے جنات کے عالم میں بھی شروع شروع میں مجھے حیرت میں مبتلا کیا تھا لیکن اس کے بعد وہ حیرت ختم ہوگئی۔ اس لیےہوگئی کہ میں جنات کی دنیا کا آدمی بن گیا‘ جنات کا میرے پاس آنا اور میرا جنات کا ہاں جانا ایک معمول کا حصہ بن گیا اور اس معمول کے حصے کو لےکر میں مسلسل چل رہا ہوں اور وہ معمول کا حصہ میری زندگی کا حصہ بن گیا۔ میرے دن رات جنات کے ساتھ گزرنے لگے۔ بدکار جنات بھی میرے پاس آتے توبہ کرتے نیک جنات بھی میرے پاس آتے اعمال بتاتے‘ عبادت کرتے ہم نے مل کر وظیفے کیے‘ ہم نے قصیدہ بردہ شریف کو بہت زیادہ پڑھا ہم نے مل کر قصیدہ شیخ جامی کا بہت زیادہ ورد کیا‘ اس کا گمان نہیں کرسکتا۔ ہم نے مل کر مدینے والے ﷺ کے روضہ اطہر پر حد سے زیادہ درود پاک پڑھا ۔امید ہے انشاء اللہ قبول ہوگا۔ لیکن جنات کی یہ یادیں مجھے اس وقت مسلسل بڑھ رہی تھیں لیکن میں سوچے جارہا تھا کہ یہ جہان کیا ہے آج تک اس جہان کا سنا تو تھا اب دیکھا ہے اور دیکھا بھی خوب ہے اور دیکھا بھی عجیب ہے بس یہ سوچیں یہ کیفیتیں یہ اندر کے انداز میرے مسلسل بڑھ رہے تھے اور بڑھ رہے تھے اور میں مسلسل ان کیفیات کے ساتھ میں مسلسل اپنے انداز کو سمیٹ رہا تھا لیکن میں سمیٹ نہیں سکتا تھا۔ میں خود الجھ گیا ہوں:میری یادداشت شاید میرا ساتھ نہیں دے رہی تھی میری سانس میرا ساتھ نہیں دے رہی ‘ میرے ہاتھ میرے پاؤں میں قارئین آپ کو اپنی کیفیات کیا بتاؤں گا خود الجھ کر رہ گیا ہوں‘ میرا وجود کو کیا بتاؤں گا میں تو خود کنفیوز ہوں‘ وہ جہان کیا تھا میں اس جہان کے بارے میں آپ کو کیا بتاؤں؟ اس جہان کا عالم‘ میرا دل ‘میری زندگی‘ میری کیفیتیں میں کیا آپ کو حیرت کے جذبے بتاؤں بس یہ سوچ مجھے مسلسل متاثرکررہی تھی میں ایک ایسے جہان میں ہوں جس میں ہر بندہ نہیں پہنچ سکتا۔ میں خود آج پہلی مرتبہ پہنچ رہا ہوں میں انہی سوچوں میں تھا ہی کہ میرے اندر اچانک ایک احساس بڑھا اور وہ احساس یہ تھا کہ اس دنیا کو میں اور زیادہ دیکھوں اس دنیا کو اور زیادہ پوچھو اور اس دنیا کے بارے میں ان سے سوال کروں۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ان کےقریب سردار کا بیٹا شہزادہ میرے قریب آیا اور ادب سے بات کی اور ادب سے بات کرنے کے بعد مجھ سے کہنے لگے کہ آپ جو کچھ سوچ رہے یہ سب کچھ آپ کی سمجھ میں نہیں آئے گا‘ جتنا آپ نے دیکھ لیا یہ ہم بتارہے ہیں اس عالم کو آپ لکھ نہیں سکتے اس عالم کو آپ بول نہیں سکتے اس عالم کو آپ بیان نہیں کرسکتے‘ اس عالم کا نام کیا ہے۔ نہ جنات‘ نہ انسان‘ نہ فرشتے یہ کون ہیں؟ آپ اس کا گمان نہیں کرسکتے‘ ہم کون سی مخلوق ہیں نہ جنات ہیں نہ فرشتے ہیں نہ انسان ہیں آپ اس کو نہیں سوچ سکتے۔ اگلے محل میں پہنچے اگلے میں سورۂ رحمٰن کی آواز آئی اور رحمٰن مسلسل بہت زیادہ  چل رہی تھی اور وہ بھی ایسے روئے روئے سے پھوٹ رہی تھی درو و دیوار سے پھوٹ رہی تھی اور درو دیوار مسلسل سورۂ رحمٰن کے ایک ایک بول کو ایسے بیان کررہے تھے۔ جیسے میرے اوپر موتیوں کی بارش ہورہی ہو‘ پھول کی پتیوں کی بارش ہورہی ہو سورۂ رحمٰن نے تو میرے انگ انگ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا پھر مجھے ایک پل میں خیال آیا کہ جنت میں میرا رب سورہ رحمٰن کیسے پڑھے گا اور اس وقت جنتیوں کی کیفیت کیا ہوگی میں تو ابھی دنیا میں ہوں‘ جنت میں نہیں ہوں‘ دنیا کے ایک نظام‘ دنیا کے ایک عالم میں ہوں ابھی قیامت نہیں آئی‘ ابھی جنت اپنی سجی سجائی اپنی مہمانوں کا انتظار کررہی۔ اس وقت کیا بنے گا جنت کے درشوں کا اس وقت کیا بنے گا جنت کے نظام کا اس وقت کیا کیفیت ہوگی جنت کے اس عالم کی بس یہ کیفیت میرے اندر مسلسل آرہی تھی اور میں اس کیفیت میں ڈوبا جارہا تھا اور میں اس کیفیت میں دن رات بہت زیادہ اپنی کیفیتوں میں اسی کیفیت تھی کہ اچانک وہ سردار بولے آئیے کھانے آپ کا انتظار کررہے ہیں۔انوکھے جہان کے انوکھے کھانے: میں سوچے جارہا کہ ان کی تو اولاد نہیں تھا اور یہ شہزادہ کہاں سے تو میری اس سوچ اور ویسے بھی جو میں سوچتا تھا اس کا فوراً وہ جواب جواب دے دیتے تھے اور فرماتے کہ یہ بیٹا میرا نہیں میرے بھائی کا ہے میں نے اس کو شہزاد ہ بنایا اب میرا بیٹا ہوگیا ہے لیکن میں اپنا فیصلہ واپس نہیں لیتا۔ یہ شہزادہ ہی رہے گا۔ ہم آگے بڑھے بہت بڑے دسترخوان ‘انوکھے کھانے ان میں ہمارے دنیا کے کھانے بھی تھے جن سے مجھے شناسائی تھی لیکن کچھ کھانے جو انوکھے بظاہر وہ ان کی شکلیں بھی عجیب و غریب تھی لیکن ان کے اندر بہت زیادہ لذت تھی۔ بہت زیادہ لذت تھی۔ قارئین! اس وقت میں لکھ رہا ہوں لیکن ان کھانوں کی لذت اور ذائقے یہاں میرے منہ میں پانی بھرے جارہا ہے یقیناً آپ کو پڑھتے ہی آپ کو بھی محسوس ہورہا تھا۔ میں ان کھانوں کو کھارہا تھا ایک بات انہوں نے مجھے کہی آپ کھانے جتنا مرضی کھائیں پریشان نہ ہوں یہ دنیا کے کھانے نہیں ہیں ان سے آپ کوبدہضمی نہیں ہوگی بلکہ یہ ہمارے عالم کے کھانے ہیں اس سے آپ کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی نہ آپکا جسم کمزور ہوگا مجھے نہ بدہضمی ہوئی نہ میرا جسم کمزور ہوا اور نہ مجھے احساس ہوا اور نہ میں یہ سوچتا رہا کہ نامعلوم ہم کتنی دیر کھاتے رہے ایک بعد دوسرا کھانا دوسرے کے بعد تیسرا کھانا ایک بعد دوسرے کھانے کی لذت اس کے بعد تیسرے کھانے کی لذت یہ لذتیں بڑھتی چلی گئیں اور ہم کھاتے رہے۔ ان کے بیٹے کا عقیقہ تھا جو انہوں نے بہت ہی زیادہ شان سے کیا تھا۔ صحابی بابا کی امامت میں نماز فجر:اس کے بعد انہوں نے دعا کی درخواست کی۔ میں نے حضرت صحابی بابا کی خدمت میں دعا کی درخواست کی۔ صحابی بابا نے بہت دیر تک خلوص قلب لجاہ قلبی کے ساتھ دعا کرواتے رہے اس دعا کے بعد ہم اٹھے تو اس دوران مجھ سے انہوں نے کہا آپ کی دنیا نماز فجر کا وقت ہوگیا ہے آپ کے عالم میں نماز فجر کا وقت ہوگیا ہے ابھی ہمارے عالم میں نہیں ہوا لہٰذاآپ پڑھ لیں ساتھ صحابی بابا کی امامت میں ہم نے نماز فجر پڑھی۔ صحابی با با نے اپنی امامت میں نماز فجر میں سورۂ رحمٰن اور سورۂ یٰسین پڑھی اور ان کا پڑھنے کا انداز اس سے کہیں زیادہ دلفریب تھا۔ جنہوں نے اللہ کے نبی کو دیکھا جنہوں نے بڑے بڑے صحابہ کو دیکھا جنہوں نے غزوات کو دیکھا بھی اور شامل بھی ہوئے جو غزوہ بدر سے لےکر غزوہ تک اور میدان کربلا تک۔ جنہوں نے بنی امیہ کا دور دیکھا اور بنو امیہ کی زندگی کے اتار چڑھاؤ دیکھے جنہوں نے بنو عباس کو دیکھا جنہوں نے دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں کے بعد مغلیہ دور کو بھی دیکھا۔ ان کی زندگی کے تجربات کیا ہوں گے قارئین! میں نے صحابی بابا سے بہت کچھ لیا میں نے صحابی با با سے بہت کچھ سیکھا میں نے صحابی بابا سے دل کا نور‘ توجہات اور اندر کیفیات لی اور حاصل کیں۔ صحابی بابا کے مزاج میں سخاوت، صحابی بابا کے مزاج میں محبت اور صحابی بابا کے مزاج میں ایک الفت تھی اور صحابی بابا ایسے ہیں جو دن رات بس اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں۔ محل کی ہر کھڑکی سے ایک جہان دیکھیں:وہاں سے فارغ ہونے کے بعد ہم اپنی اس کیفیت میں جس کیفیت میں تھے آگے بڑھے‘ آگے بڑھتے ہی ان لوگوں نے ہمیں ایک محل دکھایا اس محل کی ہر کھڑکی سے ایک جہان نظر آتا تھا اس کی کتنی کھڑیاں ہوں گی میں گمان نہیں کرسکتا۔ وہ سینکڑوں ہوں گی ہزاروں ہوں گی وہ لاکھوں ہوں گی میں سوچ نہیں سکتا کھڑکیاں زیادہ تھیں اور اس کھڑکی کی ہر کھڑکی میں ایک باغیچہ تھا اور اس باغیچہ سے وہاں کا جہان نظر آتا تھا۔ ایک انوکھا جہان‘ مسلسل نظرآتا تھا اور اس طرف جہان کو دیکھنے کیلئے اس کھڑکی سےجھانکنا ضروری تھا اس کھڑکی میں جھانکنا ضروری اور واقعی جب میں نے کھڑکی میں جھانکا میں بہت زیادہ حیران ہوا بہت حیران ہوا اور حیران یہ ہوا کہ وہاں اس سے بھی انوکھے جہان تھے اور اس سے بھی انوکھے نظام تھے۔ اچانک میرے دل میں خیال آیا کہ میں اپنی دنیا کے جہان کے دیکھوں میں نے ان سے پوچھا کہ مجھے اس کھڑکی کی طرف اشارہ کیا میں نے اس کھڑکی سے جھانکا جس طرح کو ئی جھرونکے سے جھانکتا ہے میں نے اس کھڑکی سے جب جھانکا تو مجھے احساس ہوا کہ سامنے دنیا ہے شہر ہیں‘ ریل پیل ہے‘ ان کا نظام ہے‘ وہ ایک دوربین نہیں تھی میں اسے دوربین نہیں کہوں گا میں اپنی آنکھوں سے سارے جہان کو دیکھ رہا ہوں اور اللہ نے میری آنکھوں میں وسعت دے دی ہے میں سارے جہان کو ایک پل میں ہی دیکھ رہا ہوں میں اس کی مثال آپ کو ایسے دوں گا کہ جیسے آپ کے سامنے ایک تھال پڑا ہو اور تھال میں موتی پڑے ہوں اور آپ کی نظریں سارے موتیوں کا نظارہ کررہی ہوں اور آپ کی نظروں میں سارے موتی آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوں جن کو وہ جہان سوفیصد دیکھ سکے۔

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 998 reviews.